اسلام میں صدقہ فطر کی مقدار کیا ہے؟ فطرانہ کی مقدار

 

صدقہ فطر کی مقدار

اسلام میں صدقہ فطر کی مقدار کیا ہے؟ فطرانہ کی مقدار

صدقہ فطر ہرمسلمان مرد عورت بچہ ہو یا بوڑھا عاقل اور بالغ سب پر فرض قرار دیا گیا ہے۔ اسلام میں صدقہ فطر کی مقدار کیا ہےاس کے بارے میں احادیث کی روشنی میں آج ہم بیان کریں گے۔

صدقہ فطر کی مقدار ذکر کرنے سے پہلے اس کی فضیلت اور اس کی فرضیت کا مقصد جاننا نہایت ضروری ہے تاکہ صدقہ فطر ادا کرتے وقت روزے دار کے دل میں اپنے رب کے رستے میں خرچ کرنے پر خوشی حاصل ہو۔

صدقہ فطر کا مقصد

صدقہ فطر اس لیے فرض کیا گیا ہے کہ روزے کے دوران روزے دار کی زبان سے کوئی بری بات نکل گئی ہو یا کوئی برائی کردی ہو تو صدقہ فطر ادا کرکےروزے دار اس سےپاک ہوجاتا ہے۔

حدیث میں آتا ہے:عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے۔

صدقہ فطر کا وقت

چونکہ صدقہ فطر ادا کرنے کا ایک وقت مقرر ہے تو ہمیں اس وقت سے پہلے ادا کرنا لازم ہےتاکہ جس
کوصدقہ فطر یا فطرانہ ادا کیا جارہا ہے وہ بھی رمضان میں خوشیاں حاصل کرسکے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ صدقہ کو عید کی نماز سے پہلے ادا کرو۔

 حدیث کے مطابق  جو صدقہ فطر(عید کی) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہو گا اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ شمار ہو گا۔

صدقہ فطر کی مقدار

صدقہ فطر كی شرعی مقدار ايک صاع کے برابر ہے۔ صاع ایک عربی پیمانے کو کہا جاتا ہے، جو اجناس تولنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔  لہذا جو بھی جنس صدقہ فطر کے لیے دی جارہی ہو، اسے صاع سے ماپ کر ادا کیا جائے۔ ایک صاع تقریبا دوکلو 40گرام کے برابر ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ الفطر کی مقدار ایک ’صاع‘ مقرر فرمائی ہے، جو کہ اس وقت رائج بنیادی غذائی اجناس یعنی جو، منقّیَ، پنیر ، اور کھجور وغیرہ سے ادا کیاجاتا تھا۔

اگر کسی شخص کے پاس صدقۃ الفطر ادا کرنے کے لیے غلہ موجود نہیں ہے، جیسا کہ عموماً شہری آبادی کی حالت ہوتی ہے، تو یہ ضروری نہیں کہ وہ بازار سے غلہ خرید کر صدقۃ الفطر ادا کرے بلکہ سال بھر غلے کی جو قسم وہ گھر پر استعمال کرتا ہے اس کی مقدار ایک صاع کے برابر تول کر اس کی قیمت ادا کردے۔

 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی